افغان جہاد: روسی اور امریکی تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کو بدلنے والے بڑے واقعات میں افغان جہاد ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر سوویت یونین کی مزاحمت نہ کی جاتی تو امریکہ کو واحد سپر پاور بننے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مزاحمت نے نہ صرف سوویت یونین کے عالمی تسلط کو روکا بلکہ ایک وسیع خطے کو کمیونزم کے چنگل میں جانے سے بھی محفوظ رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹا گیا اور محمد داؤد برسراقتدار آئے تو افغان حکومت میں کمیونسٹوں اور نیشنلسٹوں کا عمل دخل بڑھ گیا۔ افغان حکومت کی شہ پر پاکستان کے صوبہ سرحد میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا، جنہیں بھارت، روس اور افغان حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس دوران افغانستان میں اسلامی تحریکیں بھی متحرک ہوئیں جو بادشاہت اور کمیونزم دونوں کے خلاف تھیں۔
منہاج الدین گہیز، جو افغانستان میں روسی توسیع پسندی کے سخت مخالف تھے، نے پاکستان آ کر مولانا مودودی سے ملاقات کی اور سوویت خطرے سے آگاہ کیا۔ جلد ہی ان کی شہادت ہوگئی، جس کا الزام کے جی بی (KGB) پر لگایا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد افغانستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ جماعت اسلامی کا براہ راست رابطہ استوار ہوا۔ کابل یونیورسٹی کے پروفیسر برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی اور دیگر رہنما بھی اس رابطے میں شامل ہوگئے۔
افغان جہاد کے باضابطہ آغاز سے پہلے ہی اسلامی مزاحمت وجود میں آ چکی تھی۔ داؤد حکومت کے خلاف اسلامی تحریک کے نوجوانوں کی سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور جیسے ہی کمیونسٹ حکومت نے ان پر کریک ڈاؤن شروع کیا تو ان رہنماؤں نے پاکستان ہجرت کرلی۔ استاد برہان الدین ربانی اور دیگر مجاہدین کو پشاور میں جماعت اسلامی کے ذریعے محفوظ پناہ دی گئی۔ یہ ہجرت اور مزاحمت کسی عالمی سازش یا امریکی ایماء پر نہیں تھی بلکہ افغان عوام کی ایک فطری اور نظریاتی جدوجہد تھی۔
یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ افغان جہاد کی منصوبہ بندی ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہوچکی تھی۔ ضیاء الحق کو یہ جہاد ورثے میں ملا، اگرچہ ان کے دور میں یہ وسعت اختیار کر گیا اور بڑی طاقتیں اس میں ملوث ہوئیں۔ جنرل نصیر اللہ بابر، جو بھٹو حکومت میں فرنٹیئر کور (FC) کے سربراہ تھے، اس منصوبے کے پس پردہ عوامل کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے افغان مجاہدین کی ابتدائی حمایت صرف اس مقصد کے لیے کی تھی کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں سے باز رہے۔
البتہ یہ کہنا کہ افغان مزاحمت امریکی منصوبہ تھا، تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ مزاحمت دراصل سوویت استعمار کے خلاف افغان عوام کا ایک فطری ردعمل تھا، جو اللہ پر بھروسے کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔ اگر یہ مزاحمت نہ ہوتی تو سوویت یونین افغانستان کو لانچنگ پیڈ بنا کر پاکستان اور خلیج فارس پر قبضہ کر چکا ہوتا۔
افغان جہاد نے جہاں سوویت یونین کے ٹکڑے کر دیے، وہیں امریکہ کی غلط فہمی بھی بڑھا دی کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا ہے۔ لیکن امریکہ کی یہ خوش فہمی جلد ہی افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کے نتیجے میں ختم ہوگئی۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ افغان مجاہدین نے روسی استعمار کو ہٹاکر امریکی استعمار کے لیے راہ ہموار کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی جنگ ہر قسم کے بیرونی تسلط کے خلاف تھی۔ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو یہی مجاہدین اس کے خلاف بھی برسرپیکار ہوگئے، اور آج امریکہ کو بھی اسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جو کبھی سوویت یونین کو ہوئی تھی۔
For more updates, stay tuned to CurrentAffair.com.pk.