سید مودودی: قیادت کا کمال اور جذباتی نظم و ضبط

سید مودودی: قیادت کا کمال اور جذباتی نظم و ضبط

نفسیاتی تصورات اور جذباتی نظم و ضبط

سیریز کا تعارف:

یہ سیریز نفسیاتی تصورات کو مشہور سیاسی شخصیات کے رویوں اور فیصلوں کی روشنی میں سمجھنے کی ایک منفرد کوشش ہے جہاں ان شخصیات کی کہانیاں نفسیات کے اہم اصولوں کے تناظر میں پیش کی گئی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ قارئین کو نہ صرف انسانی رویے سمجھنے میں مدد ملے، بلکہ وہ نفسیاتی تصورات اور ان کا اطلاق بھی کیس سٹڈیز کے ذریعے سمجھ سکیں “سید مودودی: قیادت کا کمال اور جذباتی نظم و ضبط”

جذباتی نظم و ضبط:

عموماً ہم کامیابی کے لیے نظم و ضبط کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، اور اس سے ہمارے ذہن میں عموماً روزمرہ کے معاملات جیسے اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، ٹریفک کی ترتیب، یا گھر کی سلیقہ مندی آتی ہے۔ تاہم، جذباتی نظم و ضبط (Emotional Regulation) اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے، حالانکہ یہ کسی بھی شخص کی کامیابی اور سکون کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

جذباتی نظم و ضبط وہ صلاحیت ہے جس کے تحت ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور انہیں معاشرتی طور پر مناسب طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا ایک اہم جزو Cognitive Reappraisal ہے، جس میں انسان جذباتی طور پر مشکل صورتحال کی اپنے ذہن میں دوبارہ تعبیر کرتا ہے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

تاریخ میں بہت سے رہنما جذباتی نظم و ضبط میں ناکام رہے ہیں، جیسے ڈونلڈ ٹرمپ، رچرڈ نکسن، ہٹلر، اور اندرا گاندھی، جنہوں نے اپنی قیادت میں جذباتی بے ضابطگی کا مظاہرہ کیا، جس سے ان کی قیادت اور فیصلے بری طرح متاثر ہوئے۔

جیمز گراس، جو اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے معروف ماہر نفسیات ہیں، نے جذباتی نظم و ضبط کے حوالے سے ایک ماڈل پیش کیا۔ ان کے ماڈل کے مطابق، Cognitive Reappraisal جذباتی نظم و ضبط کا کلیدی حصہ ہے، جس میں انسان کسی مشکل صورتحال کو ایک نئے تناظر میں دیکھ کر اس کے جذباتی اثرات کو قابو میں رکھتا ہے۔

سید مودودی کی مثال:

سید مودودی کی زندگی کے واقعات Emotional Regulation اور Cognitive Reappraisal کی بہترین مثال ہیں۔ مولانا کوثر نیازی، جو کبھی جماعت اسلامی کے قریبی ساتھی تھے، بعد میں سیاسی اختلافات کے باعث پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور 1970 کے انتخابات میں سید مودودی کے شدید مخالف بن گئے۔ نیازی نے مودودی کی فیملی، خاص طور پر ان کی بیٹی کو نشانہ بنایا، جو کسی بھی والد کے لیے شدید جذباتی تکلیف کا باعث بن سکتا تھا۔

اس سخت مخالفت کے باوجود، سید مودودی نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور Cognitive Reappraisal کا استعمال کرتے ہوئے اس صورتحال کو ذاتی غصہ کے بجائے بڑے اسلامی مقصد کے تناظر میں دیکھا۔ انہوں نے نیازی کے حملوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی توجہ اسلامی تحریک کے وسیع تر مقاصد پر مرکوز رکھی۔ یہ ان کے Emotional Regulation کا واضح ثبوت ہے۔

کچھ عرصہ بعد، نیازی نے معروف صحافی مُجیب الرحمن شامی کے ذریعے معافی مانگی۔ سید مودودی نے فوراً اللہ کی خاطر نیازی کو معاف کر دیا، لیکن ملاقات سے انکار کیا تاکہ پرانے زخم دوبارہ نہ کھلیں۔ یہ سید مودودی کی روحانی اور نفسیاتی طاقت کا مظہر ہے، جہاں انہوں نے معافی دی لیکن اپنی جذباتی حدود کا خیال رکھتے ہوئے مزید ذہنی اذیت سے بچنے کا فیصلہ کیا۔

سید مودودی کا یہ طرز عمل ان کی نفسیاتی خود آگاہی اور اخلاقی سالمیت کی عمدہ مثال ہے۔ انہوں نے انتقام یا تلخی کو اپنے رویے پر حاوی نہیں ہونے دیا اور معافی کو ایک دینی اصول کے طور پر اپنایا۔ یہ رویہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جذباتی نظم و ضبط نہ صرف ذاتی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے بلکہ قیادت میں اخلاقی اصولوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

:What is Cognitive Reappraisal

یہ ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان کسی مشکل یا تکلیف دہ صورتحال کو ایک نئے اور مثبت تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ اس کے جذبات پر کم منفی اثر پڑے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ اپنے خیالات کو اس طرح بدلنے کا فن ہے کہ مسئلہ اتنا زیادہ پریشان کن محسوس نہ ہو۔ اپنے دماغ اور خیالات پر کنٹرول رکھنے والے افراد ہی اس پر عمل کرسکتے ہیں۔

Author: Kamran Rafi

Also read this: Syria, Turkey, and the Global Chess Players

error: Content is protected!!