شام، ترکیہ اور عالمی شطرنج کے کھلاڑی

شام، ترکیہ اور عالمی شطرنج کے کھلاڑی

شام کی خانہ جنگی اور ترکیہ کی حکمت عملی

شام کی خانہ جنگی: عالمی شطرنج کا کھیل

شام کی خانہ جنگی نے عالمی طاقتوں کو ایک شطرنج کی پیچیدہ بازی میں الجھا دیا، جہاں ہر ملک نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے چالیں چلیں۔ تاہم، اس کھیل میں ترکیہ نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جو نہ صرف اس کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے بلکہ شامی عوام کی آرزؤں کے ساتھ بھی ہم آہنگ تھی۔

بشار الاسد کے حامی اور مخالف: تضادات کا کھیل

امریکہ اور اسرائیل نے ہمیشہ ایسی پالیسی اختیار کی کہ جس سے شام مسلسل انتشار کا شکار رہے۔ کیونکہ ایک منتشر شام گریٹر اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ امریکہ نے 2014 میں داعش کے خلاف کارروائیوں کے بہانے شام میں قدم رکھا، لیکن اس کے عزائم صرف داعش تک محدود نہیں تھے۔

امریکہ نے کرد ملیشیا (YPG) کو بھرپور عسکری اور مالی مدد فراہم کی، جس نے شمالی شام میں ترکی کے لیے خطرہ پیدا کیا۔ YPG کو ترکی میں PKK کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جو ترک حکومت کے خلاف علیحدگی پسند تحریک چلاتی ہے۔ اسی دوران، اسرائیل نے شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے متعدد حملے کیے، جب کہ ایران نے بشار الاسد کے ساتھ اپنی ملیشیا کے ذریعے اپنے مفادات کو تحفظ دیا۔

ایران

شام میں ایک آزاد خود مختار حکومت جو عوامی امنگوں کی ترجمان ہو نہ اسرائیل و امریکہ کو قبول ہے نہ ہی ایران کو قبول ہے۔ اسی لیے ایران نے ہمیشہ شام کی بعث پارٹی کو سپورٹ کیا تاکہ وہ مقامی آبادی کو کچل سکے۔ 1982 میں جب حافظ الاسد نے حمہ شہر کا محاصرہ کیا اور کم و بیش چالیس ہزار شہریوں کو قتل کیا تو اس وقت بھی شامی مظالم کو ایران کی خمینی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔

سعودیہ اور اتحادی

سعودیہ اور اس کے اتحادی یو اے ای کا کردار بھی کچھ مختلف نہ رہا۔ ابتدا میں سعودی عرب نے شامی مزاحمت کاروں کو مضبوط حمایت فراہم کی اور بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم 2017 میں سعودی عرب نے شامی اپوزیشن کو واضح پیغام دیا کہ وہ اب ان کی حمایت جاری نہیں رکھے گا۔

ترکیہ کا کردار

ترکیہ نے 2011 سے لے کر اب تک کبھی بھی بشار حکومت کے معاملے میں لچک نہیں دکھائی۔ بلکہ متعدد مواقع پر ترکیہ کے صدر نے بشار الاسد اور نیتن یاہو کے مظالم کو اکٹھے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے اس واضح اور دوٹوک موقف کی وجہ یہ ہے کہ ترکیہ نے خطے میں اپنی حکمت عملی اور اپنے مفادات کو بڑی نزاکت سے شامی عوام کے مفادات کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔

سوچی معاہدہ اور ادلب کی اہمیت

2018 میں ترکیہ اور روس کے درمیان سوچی معاہدہ ہوا، جس نے ادلب کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا۔ اس معاہدے نے شامی اپوزیشن کو ایک پرامن بیس فراہم کیا جہاں سے وہ اپنی مزاحمت کو جاری رکھ سکیں۔

اپوزیشن کی کامیابی: دانشمندانہ حکمت عملی

اسی بنا پر مناسب حالات و وقت دیکھ کر شامی اپوزیشن نے بشار کی حکومت کو ایک فائنل دکھا دینے کا فیصلہ کیا کہ جس کے سامنے شامی حکومت اس کے اتحادی یعنی روس و ایران اور دیگر قوتیں یعنی امریکہ و اسرائیل تماشائی بننے پر مجبور ہو گئے۔

آج کے زمینی حقائق کی بنا پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شام میں جس فریق نے سب سے زیادہ دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کیا وہ ترکیہ ہے۔ باقی طاقتیں اپنے اپنے طاقت کے کھیل میں مصروف رہیں، لیکن ترکیہ نے شامی عوام کے لیے ایک نئی امید کی کرن پیدا کی، جو شاید اس پیچیدہ شطرنج کے کھیل میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

بہرحال یہ وقت کا شطرنج ہے ہر ایک اپنی چال چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس بساط پر اگلی چال کیا چلی جاتی ہے۔

Also read this: Syria, Turkey, and the Global Chess Players

Author: Kamran Rafi

Keep following us for Current Affairs !

error: Content is protected!!