امریکی انخلا اور پاکستان میں اڈے
امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کا کام 50 فی صد تک مکمل ہو گیا ہے۔ اب تک پانچ سو سی 17 کارگو طیاروں کی کیپسٹی کے برابر سازوسامان و سامان افغانستا ن سے منتقل کیا جا چکا ہے۔ ابتک تیرہ ہزاز پیسز آف ایکوئپمنٹ افغانستان سے ڈیفنس لاجسٹکس ایجنسی کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ ٹوٹل چھ فسلٹیز جو اس سے پہلے امریکیوں کے زیر استعمال تھیں وہ افغان آرمڈ فورسز کے ہینڈ اوور کی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر امریکی فوج کا انخلا صدر جو بائیڈن کی جانب سے مقرر کردہ گیارہ ستمبر کی ڈیڈ لائن سے بہت پہلے جولائی کے اوائل میں متوقع ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے پہلے پاکستان اور اسکے بعد افغانستان سے ملحقہ دیگر ممالک سے اڈوں کے حصول کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ چند روز پہلے سی آئی کی کے چیف کی پاکستان میں آمد اور عمران خان سے ملاقات کی کوشش میں ناکامی اسکے بعد امریکی وزیر دفاع کی جانب سے ناکام کوشش کے بارے میں آپ سن چکے ہوں گے۔ میری اسیسمنٹ میں پاکستان نے امریکہ کو ملٹری بیسز دینے سے انکار کردیا ہے۔ جسکے بارے میں میں پہلے آپکو کچھ عرصہ پہلے بتا چکا ہوں۔ در اصل نہ صرف چین بلکہ روس بھی اس چیز کو بخوبی سمجھتا ہے کہ امریکہ افغانستا ن سے انخلا کے بعد اس خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ روسی وزیر خارجہ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران اس معاملے پر پاکستانی سول اور ملٹری قیاد ت کو نہ صرف آگاہ بلکہ اعتماد میں لیا ہو کہ امریکہ اس خطے میں پریزینس یعنی موجودگی بنیادی طور پر روس، چین اور پاکستان پر نظر رکھنے کی غرض سے چاہتا ہے نہ کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کے سو کالڈ قیام امن کے لیے کیوں کہ یہ بات تو ہر کوئی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگر امریکہ اس قابل ہوتا تو جب اسکے افغانستان میں کئی اڈے ، ایئر کرافٹ ، انٹیلی جنس آفیشلز اور فوجیوں سمیت اسکے تمام مغربی اتحادی موجود تھے اسوقت انھوں نے کیا اکھاڑ لیا جو اب ایک یا دو اڈوں سے وہ اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے ایک طرح سے انکار کے بعد اب امریکہ تاجکستان اور کرغزستان سے بھی اڈوں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم ان دو ممالک پر بھی روس اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو یہاں کوئی ٹھکانہ نہ دینے کی بھر پور کوشش کررہا ہے، اس مقصد کے لیے اسے چین کی بھی بھر پور سپورٹ حاصل ہے۔
Stay connected with us for the latest updates. Follow us on Facebook and Twitter.